مغوی دھرنا اور معاشرہ

سندھ کی اغوا انڈسٹری ایک ایسا کاروباری طریقہ ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، مانا تو یہ جاتا ہے کہ اس کے کارندے فقط ڈاکو ہیں مگر انکے پیچھے کئی اسٹیک ہولڈرز کہ ہاتھ ہو سکتے ہیں، عام رائے تو یہ بھی ملتی ہے کہ پولیس وڈیرے اور باقی انتظامیہ شامل جرم ہے، یہ کہانی 70 دہائی سے میں عروج پا چکی تھی پھر وقتاً فوقتاً کم ہوتی اور بڑھتی رہی گویا یہ کرپٹوکرنسی جیسی کوئی ٹریڈنگ ہے جس کا گراف چڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ حالات ایسے ہی کہ کندھکوٹ کشمور شکار پور جیکب آباد سمیت گھوٹکی کے اندر سیکڑوں لوگ اغوا برائے تاوان اور بھتہ کے لیے مغوی بنے ہوئے ہیں، افسوس تو یہ کہ ان میں سے دو مغویوں کو تاوان نہ ملنے پر قتل بھی کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی سے اغوا ہونے والوں میں سے ایک غیر مسلم (ہندو) نوجوان ریتک کمار بھی ہے جس کا تاوان سننے میں آتا ہے کہ ایک کروڑ تک بھی مانگا گیا ہے جو اسکی طاقت سے بہت اوپر ہے۔ وہی سول سوسائٹی وڈیرے انتظامیہ پولیس سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں فقط دو ایک نوجوان جو سرگرم ہیں ان میں سر فہرست مشہور صحافی نصر اللہ گڈانی اور یوتھ ایکٹوسٹ محمد عمار دایو ...